کچھ بجلی کے بارے میں … نوید صادق

میرا پاکستان
……..

کچھ بجلی کے بارے میں
…………

ماہرین جب پاکستان میں پاور کرائسس کی بات کرتے ہیں تو اس کی جو وجوہات گنوائی جاتی ہیں، اُن میں آبادی میں اضافہ، طرزِ زندگی میں جدت، صنعتوں کا قیام، مناسب منصوبہ بندی کا فقدان جیسے عناصر سامنے آتے ہیں۔ اب آبادی کو تو ہم روکنے سے رہے، طرزِ زندگی بھی جدت کی طرف گامزن رہے گا، صنعتیں ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور ہمیں ان میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ کمی۔ اب لے دے کے ہماری نظر ایک ہی نکتے پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں وقت پر ان مسائل کی پیشین گوئی نہیں کی گئی، جب اندازہ نہیں لگایا گیا کہ آگے چل کر اس شعبہ میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، تو منصوبہ بندی تو رہ گئی ناں ۔ ایک بجلی ، گیس پر ہی کیا بس ہے کہ ہم نے تو کسی بھی شعبہ میں منصوبہ بندی کو اہمیت نہیں دی۔
پاکستان تحریک انصاف کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ خیبر پختون خواہ میں بجلی کے معاملات صوبائی حکومت کے حوالے کر دیے جائیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ اگر اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو وہ اس شعبہ کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ کو خوش حالی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔اس سلسلے میں خیبر پختون خواہ کی حکومت نے جولائی میں بجلی چوری کو روکنے کے لیے دل چسپ، سادہ لیکن پُراثر تشہیری مہم بھی چلائی جس میں لوگوں کومذہبی حوالہ دیتے ہوئے بجلی کی چوری سے روکا گیا۔لوگوں سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی عبادات حلال روشنی میں کریں۔ان مہموں سے کوئی مثبت نتیجہ نکلا کہ نہیں لیکن اب وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے تازہ دھماکہ یہ کیا کہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت کی خواہش اور مطالبے پر وزارتِ پانی و بجلی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ( PESCO)کا اختیار صوبے کو دینے کا اعلان کردیا۔اب متعلقہ وزارت اس سلسلہ کو آگے بڑھانے اور حتمی شکل دینے کے لیے مطلوبہ کاروائی عمل میں لائے گی۔یوں بھی اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کا اپنے وسائل پر پورا حق ہے، اس لیے صوبہ خیبرپختون خواہ میں بننے والی بجلی کی تقسیم اور ریکوری کا اختیار صوبے کودیا جانا چاہیے تھا۔سو ہم وزیراعظم کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے۔پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا بجلی کی تقسیم کا نظام تقریباً ناکارہ ہو چکا ہے۔اس پر دہشت گردی ہے کہ آئے دن بجلی کے ٹاورز اُڑا دیے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں سے ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ میٹر ریڈرز کو میٹر ریڈنگ کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔ اس وقت پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے لائن لاسز پینتیس فی صد ہیں۔گذشتہ سال پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا خسارہ آٹھ ارب روپے تھا۔اس پر بجلی کے نرخ جس سطح پر پہنچ چکے ہیں، صوبائی حکومت کوسیاسی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ماہرینِ سیاست یہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو مشکل میں ڈالنے کے لیے ایسا فیصلہ دیا ہے۔اس وقت ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے، لوگ پریشان اور لاچار ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بجلی اور گیس لے ڈوبے۔ اس میں کسی حد تک سچائی بھی نظر آتی ہے۔لیکن ہمارے خیال میں اس معاملہ میں سارا ملبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ڈالنا بھی درست نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو جب حکومت ملی تو بجلی اور گیس کے معاملات ایسے اچھے بھی نہیں تھے۔ جنرل مشرف کہہ رہے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں ملکی معاملات بہت بہتر تھے تو میرا اُن سے سوال ہے کہ انھوں نے بجلی اور گیس کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ سب کہانیاں ہیں، انھوں نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اگر انھوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت ہی اس معاملے پر صرف کیا ہوتا تو آج ہم ان برے حالوں نہ ہوتے۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمارا اِتنا گلہ کرنا بنتا ہے کہ انھیں جو پانچ سال ملے، اس معاملے میں انھوں نے کیا کیا؟ تو بات یہ ہے کہ ان کی مجموعی کارکردگی بھی صفر ہی رہی۔ اگر ان پانچ سالوں میں مناسب منصوبہ بندی اور موزوں حکمتِ عملی اختیار کی جاتی تو شاید آج ہم امید کرنے والے ہوتے کہ چلیے ایک دو سال میں یہ مسائل حل ہو جائیں گے کہ بجلی کی پیداوار سے متعلقہ منصوبے کوئی بچوں کا کھیل تو ہوتے نہیں کہ اِدھر حکم دیا اور اُدھر مکمل۔ یہاں تو عرصہ درکار ہوتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں جاری لوڈ شیڈنگ کا عارضی خاتمہ کر ڈالا لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ ہی یہ مسائل پھر سر اٹھا لیں گے کہ پہاڑوں پر برف کے پگھلنے کا عمل رُک جاتا ہے، نتیجتاً ہمارے ڈیموں میں پانی کی قلت ہو جاتی ہے اور ہوتے ہوتے ہم نچلی سطح کو چھونے لگتا ہیں۔سو ایسے میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمیں بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی کے علاوہ دیگر راستے بھی اختیار کرنا ہوں گے تا کہ ایسے حالات اور موسم ہمارے لیے دوبارہ تکلیف کا باعث نہ بن سکیں۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم اپنے موجودہ نظام کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہم اس وقت اپنی صلاحیت سے 23 فیصد کم بجلی بنا رہے ہیں ۔ہمارے آٹھ سو سے ایک ہزار میگا واٹ کے یونٹ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہیں۔ کیا ہم ان خرابیوں کو دور نہیں کر سکتے؟
لگے ہاتھوں جام شورو میں کوئلے سے چلنے والے جس بجلی گھر کا منصوبہ بنایا گیا تھا، اُس پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ گذشتہ دورِ حکومت میں سندھ حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بنک میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے فیصلہ دیا تھا کہ اس منصوبے میں پچاس فیصد درآمدی کوئلہ استعمال ہو گا۔ کیوں کہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے اس منصوبے کی تعمیر کے لیے قرض کو کوئلے کی درآمد سے مشروط کر دیا تھا۔ یہ بھی ایک چال تھی، کہ پاکستان سو فیصد اپنے وسائل پر انحصار نہ کر سکے۔ ویسے داکٹر ثمر مبارک سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اب کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبہ کا کیا جائے۔ کیا یہ کوئلہ واقعی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا باعث ہو گا۔ اگر ایسا نہیں تو حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اس طرف توجہ دینا چاہیے۔ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
ان حالات میں جناب عمران خان سے بھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں کہ خیبر پختون خواہ کوبجلی کے اختیارات مل جانے کے بعد وہ اسے بہتر انداز میں چلائیں گے۔ ہم یہاں تیرے میرے کی بات نہیں کرنا چاہتے کہ سارا ملک ہمارا ہے اور ہمیں پورے ملک کی ترقی کے لیے سوچنا اور کام کرنا ہے۔خان صاحب کو چاہیے کہ اپنی احتجاجی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر تعمیر و ترقی کے کاموں کی طرف مائل ہوں۔ لوگ ان کی بات سنتے، سمجھتے اور ان کے پیچھے نکلتے بھی ہیں۔یقین جانیے تعمیرو ترقی کے کاموں پر توجہ ہی اُن کو ایک مضبوط سیاسی مستقبل فراہم کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۰۲ جنوری ۲۰۱۴

Related posts

Leave a Comment