ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ رباعیات

مرنا ہے تو بے موت نہ مرنا بابا دم سادھ کے اس پُل سے گزرنا بابا سنتے ہیں کہ ہے موت سفر کا وقفہ اس پار ذرا بچ کے اترنا بابا ۔۔۔ موتی نہ تھے دریا میں تو ہم کیا کرتے آنسو ہی نہیں آنکھ میں غم کیا کرتے ہاتھ آوے کھوکھلے لفظوں کے صدف گہرائی کی رُوداد رقم کیا کرتے ۔۔۔ تقدیر پہ الزام نہیں دھر سکتے خاکے میں سیہ رنگ نہیں بھر سکتے ہر لوح پہ تحریر کہ جینا ہے حرام آواز لگا دو کہ نہیں مر سکتے…

Read More

ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ صور اسرافیل

اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو اپنے بچوں کی جانب سے منھ پھیر لو اس گھڑی بیویوں کی نہ پروا کرو راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو اس سے پہلے کہ تعمیل میں دیر ہو سائرن بج رہا ہے ۔ چلو دوستو!

Read More

ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ دوسری جلاوطنی

جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا، اس کو چکھنے کی خاطر، میں جنت کو ٹھکرا آیا تھا۔ اب گیہوں کا دانہ، بھوک کا سمبل ہے ۔ جس کو پانے کی خاطر، میں اپنی جنت سے باہر ہوں !

Read More