محمد مختار علی ۔۔۔ دِلوں سے درد ، دُعا سے اَثر نکلتا ہے

دِلوں سے درد ، دُعا سے اَثر نکلتا ہےیہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رِواجسو اِس عذاب سے اب کُوزہ گر نکلتا ہے میاں یہ چادرِ شہرت تم اپنے پاس رکھوکہ اِس سے پائوں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے خیالِ گردشِ دوراں ہو کیا اُسے کہ جو شخصگرہ میں ماں کی دُعا باندھ کر نکلتا ہے میں سنگِ میل ہوں پتھر نہیں ہوں رَستے کاسو کیوں زمانہ مجھے روند کر نکلتا ہے مرے سُخن پہ تو دادِ سُخن نہیں…

Read More