محمد مختار علی ۔۔۔ خطاط

خطاط۔۔۔۔۔قلم ہاتھوں میں آتے ہیہماری اُنگلیاں یوں رقص کرتی ہیںکہ نُقطے، دائرے، الفیں، کشش اور زیر،زبروپیشباہم جُھومتے گاتےقلم کی بزم کو آراستہ کرتے ہیںاپنے حُسن کے جلوے دکھاتے ہیں !!ہماری خوش نویسی درحقیقت رمز ہےاک خواب کی،اک عشق کی، اک جُستجُو کی !!ازل سے تا ابد جو خالق و مخلوق کا باہم تعلّق ہےقلم سے لفظ کا بھی ہُو بہُو ویسا ہی رشتہ ہے !!ہمارے لفظ کی توقیرکُن کے دائرے کے درمیاں نُقطے میں پنہاں ہےاِسی نُقطے میں پِنہاں رمز کوہم اپنی تحریروں میں اکثر آشکارا کرتے رہتے ہیں !!ہمیں…

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔ دِلوں سے درد ، دُعا سے اَثر نکلتا ہے

دِلوں سے درد ، دُعا سے اَثر نکلتا ہےیہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رِواجسو اِس عذاب سے اب کُوزہ گر نکلتا ہے میاں یہ چادرِ شہرت تم اپنے پاس رکھوکہ اِس سے پائوں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے خیالِ گردشِ دوراں ہو کیا اُسے کہ جو شخصگرہ میں ماں کی دُعا باندھ کر نکلتا ہے میں سنگِ میل ہوں پتھر نہیں ہوں رَستے کاسو کیوں زمانہ مجھے روند کر نکلتا ہے مرے سُخن پہ تو دادِ سُخن نہیں…

Read More

نعتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔ محمد مختار علی

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔ جسم میں رسمِ تنفس کا عمل جاری ہو

جسم میں رسمِ تنفس کا عمل جاری ہو تم جو چھو لو تو نئے خواب کی تیاری ہو! رات میں صبح اُمڈتی ہو کہ تم آن مِلو نیند کی نیند ہو، بیداری کی بیداری ہو تم جو سوئے رہو ، سورج بھی نمودار نہ ہو عکس کے شوق میں آئینے کی تیاری ہو کتنے دلچسپ خیالوں کو جنم دیتی ہے! وہ مری چُپ ہو کہ منظر کی سُخن کاری ہو! نہ سہی شاعری ، پیغمبری ، مختار مگر!! کون ہے جو مرے اِلہام سے انکاری ہو؟

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔۔۔۔۔ آسماں یا زمیں طواف کرے

آسماں یا زمیں طواف کرے جو جہاں ہے وہیں طواف کرے کعبہء  عشق بے نیاز سہی دِل تو اپنے تئیں طواف کرے رنگ اُس کا طواف کرتے ہیں جب کوئی مہ جبیں طواف کرے طائرِ خوش نوا ہو نغمہ سرا اور حرم کا مکیں طواف کرے اُس گماں سے ہمیں ہے نسبتِ عشق جس گماں کا یقیں، طواف کرے ریت چھلکائے زمزمے مختارؔ جب وہ صحرا نشیں طواف کرے

Read More

محمد مختار علی

دَرد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد میرؔ نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔۔۔۔ دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی

دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی ریت پر بیٹھ کے پانی کی نمائش نہیں کی وقت ہر چیز کو مٹی میں ملا دیتا ہے اِس لیے ہم نے جوانی کی نمائش نہیں کی چاند کو گھر سے نکلنے میں جو تاخیر ہوئی رات نے رات کی رانی کی نمائش نہیں کی دَرد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد میرؔ نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی اِک غزل لکھ کے بہا دی ہے ندی میں مختارؔ پر طبیعت کی رَوانی کی نمائش نہیں کی

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔۔۔۔ عشاق بھی کیا نِت نئے آزار خریدیں

عشاق بھی کیا نِت نئے آزار خریدیں اِک غم کی ضرورت ہو تو بازار خریدیں آباد ہے شہروں سے تو ویرانہ ہمارا ! دو دِن کے لیے کیا در و دیوار خریدیں دَستار کو جو ڈھال سمجھتے ہیں وہ سمجھیں ! سَر جن کو بچانا ہے وہ تلوار خریدیں گویائی کی قیمت پہ خریدیں تری آواز ! آنکھوں کے عوض ہم ترا دیدار خریدیں دِن بھر تو بَدن دھوپ میں چُپ چاپ جلائیں پھر شام ڈھلے سایۂ دیوار خریدیں اِک بِھیڑ غلاموں کی وہاں دیکھتی رہ جائے محشر میں مجھے…

Read More