محمد مختار علی ۔۔۔ غزل کو اپنے جنوں سے دراز قد کیے جائیں

غزل کو اپنے جنوں سے دراز قد کیے جائیں ہم اہلِ دِل یونہی آرائشِ خرد کیے جائیں جگر ہو خوں تو عنایت ہو ایک مصرعۂ تر !! سخن عطا ہوں تو پھر کیسے مُسترد کیے جائیں بس ایک شرط پہ میں ہار مان سکتا ہوں مرے خلاف مرے یار نامزد کیے جائیں سو   طَے ہوا کہ یہ اعجازِ دستِ قدرت ہے کسی چراغ سے سورج اگر، حسد کیے جائیں کسی لغت سے وہ مفہوم پا نہیں سکتے! جو حرف حلقۂ دانشوراں میں رَد کیے جائیں اور ایک ہم ہیں کہ…

Read More

محمد مختار علی ۔۔۔ جسم میں رسمِ تنفس کا عمل جاری ہو

جسم میں رسمِ تنفس کا عمل جاری ہو تم جو چھو لو تو نئے خواب کی تیاری ہو! رات میں صبح اُمڈتی ہو کہ تم آن مِلو نیند کی نیند ہو، بیداری کی بیداری ہو تم جو سوئے رہو ، سورج بھی نمودار نہ ہو عکس کے شوق میں آئینے کی تیاری ہو کتنے دلچسپ خیالوں کو جنم دیتی ہے! وہ مری چُپ ہو کہ منظر کی سُخن کاری ہو! نہ سہی شاعری ، پیغمبری ، مختار مگر!! کون ہے جو مرے اِلہام سے انکاری ہو؟

Read More