میر تقی میر ۔۔۔  جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

 جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں‌ ہر سفری کا زنداں میں‌ بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا صد موسمِ‌گل ہم کو تہِ بال ہی گزرے مقدور…

Read More