سعادت سعید ۔۔۔ ہر ذرّہ چمک اٹھتا ہے مانندِ ِثُریّا

ہر ذرّہ چمک اٹھتا ہے مانندِ ِثُریّا جب طُورِ تجلّی سے ملا ہو یدِ بیضا سَر چشمۂ وجدان سے نکلی ہے وہ اک رَو بنتی ہے جو اشعار کا بہتا ہوا دریا وجدان کو الہام سے نسبت ہے بس اِتنی یہ آبِ ریاضت ہے تو وہ نہرِ زبیدا ہاتِف کا سخُن ہو کہ حقائق کے معارِف بنیاد ہے اعمال کا تپتا ہُوا صحرا کہنا ہے : یہ مکتب کا ادب صِرف ادب ہے مُنّاد یہ کہتے ہیں کہ ہے کارِ مسیحا ان کُلیوں سے تنگ آ کے کہا اہلِ قلم…

Read More

سعادت سعید ۔۔۔ اک کاسہ ہے چٹائی ہے اور بے نوائی ہے

اک کاسہ ہے چٹائی ہے اور بے نوائی ہے اے ارضِ اشتہا! یہ مری کل کمائی ہے اس ناشناس دور کا حق کیا ادا کریں عالم ہیں خوار ان کا مقدر گدائی ہے شاید کہ مدتوں کی شکستوں سے ہو نجات اب فہم و جستجو کی فلک تک رسائی ہے اے باغبانِ باغِ! خود آرائی احتیاط قیدِ عدم سے غنچۂ جاں کی رہائی ہے کیسے ملے گی بھیک کہ مجبور تو بھی ہے پھولوں کا بوجھ ہے تری نازک کلائی ہے دیکھا جو بے نقاب اسے چاند نے کہا آئینۂ…

Read More

سعادت سعید ۔۔۔ برنگِ قیس

برنگِ قیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔برنگِ قیس دنیا میں کسے حاصل ہے آزادی کہ جس ماحول میں رہتے ہیں اس میں فکر کا مکتب کہ جذبے کے مکاتب فرد کا مذہب اداروں کے مذاہب اپنی آزادی کا دم بھرنے سے خائف ہیں عوام الناس اک دوجے کے مغلوب و اسیر خود سے بھی سہمے ہوئے جیسے ان کے سر پہ چنگیزی سپاہ ننگی تلواریں،دمکتی تیز سنگینیں لیے ایستادہ ہوں ذرا سی جنبش ِخاطر بھی ان کوموت کے تاریک غاروں میں دھکیلے گی یہی ان کا گماں ہے اور یہی ہے آسماں ان کا معابد،ریڈیو…

Read More

سعادت سعید ۔۔۔ کشمیر اداس ہے

  کشمیر اداس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی برف پگھلی نہیں ہے چناروں پہ پھولوں کی گلکاریاں کس نے دیکھیں ابھی برف پگھلی نہیں ہے نہ جانے گلابوں کی خوشبو سے محروم مظلوم وادی پہ سورج کی روشن شعاعوں کے وہ کارواں اب تلک کیوں نہ اترے کہ جن کی تمازت سے جھیلوں میں آزاد بجروں کے موسم چہکنے لگیں گے لہو رنگ کشمیر شب خون کے سلسلے کب تلک چل سکیں گے ابھی برف پگھلی نہیں ہے ہوائیں ابھی منجمد ہیں اداسی کے نوحے سناتی فضائیں ابھی منجمد ہیں تری خلق…

Read More