سعادت سعید ۔۔۔ ہر ذرّہ چمک اٹھتا ہے مانندِ ِثُریّا

ہر ذرّہ چمک اٹھتا ہے مانندِ ِثُریّا
جب طُورِ تجلّی سے ملا ہو یدِ بیضا

سَر چشمۂ وجدان سے نکلی ہے وہ اک رَو
بنتی ہے جو اشعار کا بہتا ہوا دریا

وجدان کو الہام سے نسبت ہے بس اِتنی
یہ آبِ ریاضت ہے تو وہ نہرِ زبیدا

ہاتِف کا سخُن ہو کہ حقائق کے معارِف
بنیاد ہے اعمال کا تپتا ہُوا صحرا

کہنا ہے : یہ مکتب کا ادب صِرف ادب ہے
مُنّاد یہ کہتے ہیں کہ ہے کارِ مسیحا

ان کُلیوں سے تنگ آ کے کہا اہلِ قلم نے
سچائی کا بے گور و کفن رقصاں ہے لاشہ

یہ قیس کا سودا ہے، یہ لیلٰی کا ہے محمِل
یوسُف کا تماشا ہے، خراباتِ زلیخا

ہو سکتے نہیں خشک تخالیق کے سَوتے
دنیا کا کُھلی آنکھوں سے دیکھا ہےتماشا

وابستہ ہے خالق کا قلم اہلِِ جہاں سے
وہ اُن کے لیے بُنتا ہے انوار کا کپڑا

جس روز پہَن لے گی سَحَر سُوت کی گدڑی
ہو جائے گا روپوش حریرِ شبِ یَلدا

کرتا ہے جو فن کار طوافِ درِ تحقیق
اعصاب پہ باندھے ہوئے اَحرامِ ثریّا

طے کرتا ہے وہ گہرے معانی کے خلا کو
ادراک صفت برق پہ اک آن میں تنہا

Related posts

Leave a Comment