سعادت سعید ۔۔۔ اک کاسہ ہے چٹائی ہے اور بے نوائی ہے

 اک کاسہ ہے چٹائی ہے اور بے نوائی ہے
 اے ارضِ اشتہا! یہ مری کل کمائی ہے

 اس ناشناس دور کا حق کیا ادا کریں
 عالم ہیں خوار ان کا مقدر گدائی ہے

 شاید کہ مدتوں کی شکستوں سے ہو نجات
 اب فہم و جستجو کی فلک تک رسائی ہے

 اے باغبانِ باغِ! خود آرائی احتیاط
 قیدِ عدم سے غنچۂ جاں کی رہائی ہے

 کیسے ملے گی بھیک کہ مجبور تو بھی ہے
 پھولوں کا بوجھ ہے تری نازک کلائی ہے

 دیکھا جو بے نقاب اسے چاند نے کہا
 آئینۂ گلاب میں عکسِ طلائی ہے 

مانا گیا ہے شاہ کو ہر دور میں خدا
 اس کارِ کم سواد کی عادی خدائی ہے

 مظلوم بندگی ہوں تماشائی ہیں بہت
 معدومِ خواجگی ہوں بدن کی چنائی ہے

 انسان کائنات کا مرکز ہے، الاماں!
 اک سازِ خوش خیال کی نغمہ سرائی ہے

Related posts

Leave a Comment