اکیلی ۔۔۔۔۔ بلراج کومل

اکیلی
۔۔۔۔
اجنبی! اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں، تمہارے لیے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ ، یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں،
میرے ابا نہیں،
میری آپا نہیں،
میرے ننھے سے معصوم بھیاّ نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئنے
میری امی کے ، ابا کے ، آپا کے اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خوں سےہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاںچند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنولمیرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں ایک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں،
تن پہ کپڑا نہیں،
آس معدوم ہے،
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں

اجنبی! اپنے قدموں کو روکو ذرا

سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
میری امی بنو،
میرے ابا بنو،
میری آپا بنو،
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو،
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو،
میرے کچھ تو بنو،
میرے کچھ تو بنو،
میرے کچھ تو بنو،

Related posts

Leave a Comment