شفیق سلیمی ۔۔۔ مرے وجود سے باہر نکل گیا ہے کدھر

مرے وجود سے باہر نکل گیا ہے کدھر دھمال میں تھا قلندر نکل گیا ہے کدھر دھنک کے رنگ اڑاتا ہوا ہوائوں میں نظر سے میری وہ منظر نکل گیا ہے کدھر ہوئی ہیں کوششیں سب رائگاں رہائی کی نکالنا تھا کدھر در، نکل گیا ہے کدھر تری پناہ میں آیا نہیں تو دشت بتا انا پرست وہ خود سر نکل گیا ہے کدھر وہ ریگزارِ تمنا کی خاک اڑاتے ہوئے پھلانگتا سبھی ساگر نکل گیا ہے کدھر اڑان بھرنے کا یارا نہیں اسے تو شفیقؔ ٹھکانہ چھوڑ کے بے…

Read More