رشید آفرین ۔۔۔ قضا رہتی ہے ہر پل زِندگانی کے پسِ پردہ

قضا رہتی ہے ہر پل زِندگانی کے پسِ پردہ
حقیقت جیسے مخفی ہو کہانی کے پسِ پردہ

بشر خاطر میں کب لاتا ہے تخلیقی مراحل کو
بڑھاپا گو ہے اِستادہ جوانی کے پسِ پردہ

تغافل ہے اِدھر گر تو اُدھر بے اعتنائی ہے
عوامل ایک سے ہیں بدگمانی کے پسِ پردہ

مرے شہرِ وفا میں یہ عجب طرزِ خطابت ہے
ملے درسِ جفا شیریں بیانی کے پسِ پردہ

یہی تو بدنصیبی ہے چمن اُن کے حوالے ہے
جو کاٹیں نخلِ نو کو باغبانی کے پسِ پردہ

مکافاتِ عمل کی سمت قدرت کا اشارہ ہے
مسلسل ہر بلائے ناگہانی کے پسِ پردہ

بظاہر خادمِ اعلیٰ ہیں لیکن یہ خدا جانے
عزائم کیاہیں ان کی حکمرانی کے پسِ پردہ

امر ہوتے ہیں جو بھی آفریں وہ جانتے ہیں سب
مقامِ جاوداں ہے دارِ فانی کے پسِ پردہ

Related posts

Leave a Comment