مظہر حسین سید ۔۔۔ ساعتِ گم گشتہ

ساعتِ گم گشتہ
……………….

کوئی ہے کوئی ہے کی آواز دے کر مجھے یاد آیا کہ کوئی نہیں ہے
تمام اہلِ خانہ تو شادی پہ  ۔۔۔ جاتے ہوئے بھی بتا کر گئے تھے ۔۔ مگر حافظہ اب!!
مگر حافظے سے مجھے یاد آیا بلا حافظہ تھا ۔۔
کہ حافظ سے دو سال پڑھتا رہا  پر چھڑی تک نہ کھائی
اور اسکول میں بھی کئی ماسٹر میرے گالوں پہ تھپڑ لگانے کی حسرت لیے ہی ریٹائر ہوئے تھے
الف بے کی بے معنی تکرار میں میرا ثانی کہاں تھا
جب اسکول کے راستے پر اکنّی گری تھی تو کتنے برس آتے جاتے ہوئے اُس کو ڈھونڈا کیا
اور اکنّی نے تو خیر ملنا تھا کیا !! میرا بچپن اُچھلتا مچلتا اُسی راستے پر کہیں کھو گیا تھا
الف بے کی بے معنی تکرار لفظوں میں ڈھلنے لگی تھی
ہر اک لفظ مفہوم دینے لگا تھا
مگر لفظ مفہوم و مطلب سے ہٹ کر تو کچھ بھی نہیں تھا
سو مطلب کے چکر میں لفظوں کے چکر لگاتے ہوئے اور جملے بناتے ہوئے کچھ برس کٹ گئے
میم سے مور تو پڑھ چکا تھا مگر میم سے جب محبّت پڑھا تھا تو یہ واقعہ تھا
یہ اسکول کا آخری سال تھا اور جوانی کی دہلیز پر میرا پہلا قدم تھا
محبّت فقط لفظ ہی تو نہیں تھا کہ مفہوم پڑھ کر گزر جاتا میں
اور پھر جب ترے پنکھڑی جیسے لب بھی محبّت تلاوت میں شامل ہوئے تو عجب اک فضا تھی
اک احساس تھا جو رگ و پے میں اُترا تو دل میں ترے لمس کی خواہشیں تلملانے لگی تھیں
تری آنکھ میں اک نشہ تھا کہ جس کے اثر سے نکلنا نہیں ڈوبنا چاہتا تھا
ترے ہونٹ پر جب تبسّم کھلا تو مجھے یوں لگا زندگی مسکرائی
میں اک حافظے کا کھلاڑی تھا لیکن جمالِ رُخِ یار میں خود کو ہی بھول بیٹھا
مگر زندگی کے اکہترویں زینے پہ چڑھتے ہوئے آج بھی تیرے ہونٹوں کا رس میرے ہونٹوں پہ
پُرکیف سا ذائقہ دے رہا ہے
ترے خال وخد بھی نگاہوں میں تازہ ہیں تصویر بن کر
مجھے یاد آیا تری ایک تصویر نچلے درازوں میں رکھی ہوئی تھی
چلو دیکھتا ہوں ۔۔
میں بستر سے اُٹھ تو گیا ہوں کسی طور پر میرا چشمہ ۔۔ یہ چشمہ کہاں ہے ؟
کوئی ہے ۔۔۔ ذرا میرا چشمہ تو لا دو
کوئی ہے کوئی ہے کی آواز دے کر مجھے یاد آیا کہ کوئی نہیں ہے
تمام اہلِ خانہ تو شادی پہ ۔۔۔ جاتے ہوئے بھی بتا کر گئے تھے ۔۔ مگر حافظہ اب !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment