مظہر حسین سید ۔۔۔ بیج سے کیسے پھول اور ڈالی بنتی ہے

بیج سے کیسے پھول اور ڈالی بنتی ہے
فطرت کے اخلاص پہ تالی بنتی ہے

ایک خیال ہے جس کی کوئی شکل نہیں
جس نے بھی جو بات بنا لی بنتی ہے

کیسے اس میں قوسِ قزح کے رنگ بھروں
رات کی ہو تصویر تو کالی بنتی ہے

کب بنتی ہے مجھ سے چشمِ ناز اس کی
بن جائے تو دیکھنے والی بنتی ہے

خواب چرانا جس بستی کا پیشہ ہو
اُس میں آنکھوں کی رکھوالی بنتی ہے

اس منظر کی کوئی بھی تفہیم نہیں
اس موقع پر سیدھی گالی بنتی ہے

Related posts

Leave a Comment