جمع تھے ہجر کی دہلیز پہ ڈھلتے ساۓ
کون اب گزرے زمانوں کی کتھا دہراۓ
ہم زمیں زاد، خداؤں سے گلا کیا کرتے
ہم جو افلاک سے اک زخم کی حیرت لاۓ
رات، سرخاب پہ گزری کہ قیامت گزری
لمحہ لمحہ کوئی پیکانہوا تڑپاۓ
آگ جلتی ہی رہی، ابر برستا ہی رہا
ہم بھی اک یاد کے مرقد پہ دیا رکھ آۓ
آخری رات تھی آنکھوں میں کوئ خواب نہ تھا
جیسے بچہ کوئ جنگل میں کہیں کھو جاۓ
پوششساعتِ رفتہ میں چھپی گلفامی
رات آۓ تو چراغوں کو سخن پہناۓ
تشنگی ہے کہ سرابوں میں لیے پھرتی ہے
مر ہی جائیں گے عطا پیاس اگر بجھ جاۓ