اورہی طرح کے میں سلسلے بناتا ہوں
دشت چھان لیتا ہوں ، آئنے بناتا ہوں
یہ مری روایت ہے ، جبر کی فصیلوں کو
ریزہ ریزہ کرتا ہوں ، راستے بناتا ہوں
خواب جب بھی آتے ہیں اک بھنور کی مٹھی میں
میں بھی اپنے سینے میں وسوسے بناتا ہوں
مجھ پہ کھلنے لگتے ہیں ، خوشبوؤں کے دروازے
جب کبھی محبت کے زمزمے بناتا ہوں
ہم جو کام کرتے ہیں ، کتنے مختلف سے ہیں
تم ہوا بناتے ہو ، میں دیے بناتا ہوں
اک شجر بناتا ہوں ، کینوس کے ماتھے پر
اور اس پہ چڑیوں کے گھونسلے بناتا ہوں
ایک دھیان ایسا ہے ، جس کی اوٹ میں اطہر
نیند سے بچھڑتا ہوں ، رتجگے بناتا ہوں