وہ رات جا چکی، وہ ستارہ بھی جا چکا
آیا نہیں جو دن، وہ گزارا بھی جا چکا
اِس پار ہم کھڑے ہیں ابھی تک اور اُس طرف
لہروں کے ساتھ ساتھ کنارہ بھی جا چکا
دکھ ہے، ملال ہے، وہی پہلا سا حال ہے
جانے کو اس گلی میں دوبارہ بھی جا چکا
کیا جانے کس خیال میں عمرِ رواں گئی
ہاتھوں سے زندگی کے خسارہ بھی جا چکا
کاشف حسین چھوڑیے اب زندگی کا کھیل
جیتا بھی جا چکا اسے ہارا بھی جا چکا