شبِ زفافِ ابو لہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،
ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں
سانپوں کے ہار لائی، نہ اس کو مشاطّگی سے مطلب
نہ مانگ غازہ، نہ رنگ روغن، گلے میں سانپوں
کے ہار اس کے، تو سر پہ ایندھن!
خدایا کیسی شب زفافِ ابو لہب تھی!
یہ دیکھتے ہی ہجوم بپھرا، بھڑک اٹھے یوں غضب
کے شعلے، کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!
جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں، نہ صحن میں شوخ
لڑکیوں کے تھرکتے پاؤں تھرک رہے تھے،
نہ نغمہ باقی نہ شادیانے !
ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا، لگام تھامی، لگائی
مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!
ابو لہب کی خبر جو آئی، تو سال ہا سال کا زمانہ
غبار بن کر بکھر چکا تھا!
ابو لہب اجنبی زمینوں کے لعل و گوہر سمیٹ کر
پھر وطن کو لوٹا، ہزار طرّار و تیز آنکھیں، پرانے
غرفوں سے جھانک اٹھیں، ہجوم، پیر و جواں کا
گہرا ہجوم، اپنے گھروں سے نکلا، ابو لہب کے جلوس
کو دیکھنے کو لپکا!
"ابولہب!” اک شبِ زفافِ ابو لہب کا جلا
پھپھولا، خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشقِ برباد
کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اُٹھی: ’’ابو لہب!
تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن
گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟‘‘
ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی
مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!