ایک مختصر کہانی ۔۔۔۔ عبدالرشید

ایک مختصر کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر پایا نہیں کچھ بھی تو ہم سے چِھن گیا کیا ہے
یہ دردوں کی بدلتی کروٹوں کی اوٹ سے گرتے ہوئے
سالوں کے ڈھیر

اِنھیں ڈھیروں کی بوجھل گرد میں وہ دوست لمحے
جب کسی اک نیم روشن چاند کے پہلو میں پہلے چاند کی
کرنیں انڈیلی تھیں

گلِ کوکب کی جھڑتی پتیوں کی باس میں وہ پہلا دن سپنا
وہ سبزے کی رواں لہروں میں موسم رقص برپا، آنے والے
روز و شب کا

اور وہ پہلا کسیلا گھونٹ پیلی نفرتوں کا
جیب میں شکتی نہ تھی اور پائوں میں چھالے نہ تھے
اک صبر تھا

سر میں کسی وحشت کی ہلکی بوندا باندی تھی
مگر اس بات کی کس کو خبر تھی، ہر قدم شطرنج
کے مہرے کی صورت

رزم گاہِ وقت میں اک جان لیوا تیر ہے:
گو خود لہو ہوتے رہے اور آنے والا دن بچھڑتے دن
کی سنگت سے رِہا

Related posts

Leave a Comment