کہاں گئی ہو؟
فلک کے اُس پار جا بسی ہو؟
زمیں کی گہری گپھا کے اندر اتر گئی ہو
کہاں گئی ہو؟
تمھارے ہونے سے دل جواں
رہ گزر رواں تھی
گلاب چہروں سے ساری بستی مہک اُٹھی تھی
خوشی، مکانوں کے ساغروں سے چھلک پڑی تھی
تمھارے جانے کے بعد
اب کچھ رہا نہیں ہے
اُداس شاخوں میں
اک بھی بھیگی صدا نہیں ہے
ہوا سے خوشبو
زمیں سے برکھا خفا کھڑی ہے!
کہاں گئی ہو؟
رسیلی، میٹھی، گداز ۔۔۔۔ گھی میں گُندھی رُتو
تم کہاں گئی ہو؟؟