یونس خیال … آکسیجن پر آخری مکالمہ

آکسیجن پر آخری مکالمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گُھٹن بڑھ رہی ہے
مجھے سانس لینے میں
دِقت سی محسوس ہونے لگی ہے
کہاں ہے ملازم !
ذرا آ کے کھڑکی یا دَرکھول دیتا

ذرادیرپہلے
اُسے میں نے گھرکوروانہ کیاتھا
جہاں اس کی بیوی اکیلی پڑی ہے
سنا ہے اسے بھی
ہماری طرح سانس کامسئلہ ہے

میں ہوں نا یہاں
تم کوخوددیکھتاہوں
میں اٹھتاہوں بس
یہ سلنڈر کی نالی کو
خود سے ہٹالوں
ذرا دور کرلوں

مگریہ تمھارے سلنڈرکامیٹر
لرزتاساکیوں ہے
اوہ میرے خدایا
کہیں آکسیجن ۔۔۔

رکو !
تم نہ اُٹھنا
تمھیں کچھ ہوا تو
میں کیسے جیوں گی
میں بہترہوں اب تو
مری آکسیجن ہو تم میرے آدم !

اوہ میرے خدایا !
تمھاری زمیں پرعجب بے بسی ہے
یہ حوا کی باتیں ، یہ آدم کی باتیں
انھیں دیکھ کر
یہ فرشتوں کی چیخیں
اگرسُن سکوتو!

Related posts

Leave a Comment