ہمیں عزیز نہ کیونکر ہو، غم حسین ؑ کا ہے
اُسی نواسۂ شاہِ اُمم، حسین ؑ کا ہے
ہیں مطمئن،متعین ہے راستہ اپنا
ہمارے سامنے نقشِ قدم حسین ؑ کا ہے
یہ سانحہ تھا کہ وہ لشکرِ یزید میں تھا
یہ معجزہ ہے کہ حُر ہم قدم حسین ؑ کا ہے
زباں سے اور قلم سے بیاں کریں جتنا
مقام اُس سے کہیں محترم حسین ؑ کا ہے
یزید حرفِ غلط تھا، سو مٹ چکا کب کا
زمانہ اب بھی خدا کی قسم، حسین ؑ کا ہے
یزیدی قوتیں اب بھی ہمارے درپـے ہیں
ہمارے ہاتھوں میں اب بھی عَلَم حسین ؑ کا ہے
تو کیوں نہ اپنے لہو میں اِسے ڈبو کے لکھیں؟
بیان جب سرِ نوکِ قلم حسین ؑ کا ہے
خدا کرے ، یہ کسی دوسری طرف نہ اٹھے
مرا وہی ہو قدم جو قدم حسین ؑ کا ہے
نصیب ہو گئی تفہیم کربلا جب سے
یہ جاں حسین کی ہے، اوریہ دم حسینؑ کا ہے
نسیمؔ دل میں سماں کیوں نہ ہو چراغاںکا !
ہمارے دل میں مکیں جب الم حسین ؑ کا ہے