میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔
کتابی سلسلہ ”اعصار“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کو شاہد ماکلی راس نہیں آیا کہ شاہد ماکلی کو لاہور ۔۔ اس بات پر بہت سوچا لیکن کچھ سجھائی نہ دیا۔شاہد ماکلی میری طرح انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے لاہور آیا، پھر ایک عرصہ یہیں پڑا رہا۔لاہور میں کنور امتیاز احمد، ارشد شاہین اور حسنین سحر اسکے یارِ غیر تھے، جنابِ خالد احمد تو گویا ہم سب کے لیے ایک پناہ گاہ کا درجہ رکھتے تھے، ہم سب خالد صاحب کی شخصیت کے اسیر تھے۔ خالد احمد صاحب نے ہمیں تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پرویا ہوا تھا۔ دن کے وقت ہم کہیں بھی ہوتے، شام کو خالد صاحب کا ایس ایم ایس”I m at Baithak” ملتے ہی ایک بے چینی سی لاحق ہونے لگتی کہ جلدی بیٹھک پہنچیں۔خالد احمد صاحب کہ جنھیں اب تک مرحوم لکھنے کو دل نہیں مانتا،ہماری طرح اور بہت سے نوجوان لکھاریوں کے لیے ایک تربیتی ادارہ کا درجہ رکھتے تھے۔
بات ہو رہی تھی شاہد ماکلی کی تو وہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد یہیں کا ہو رہا، ملازمت بھی کی، حسنین سحر اور کنور امتیاز احمد کے ساتھ مل کر ایک ادبی جریدہ ”تلازمہ“ جاری کیا، تلازمہ کا محض ایک ہی شمارہ منظرِ عام پر آ سکا، وجوہات کچھ بھی ہوں ، تلازمہ کا یہ اکلوتا شمارہ اپنی اشاعت، طرزِ پیش کش اور مواد کے حساب سے ایک یاد رکھا جانے والا پرچہ ہے۔ شاہد بظاہر ہنسی خوشی لاہور میں زندگی گزار رہا تھالیکن اس کے اندر کہیں وسیب لوٹ جانے کی ”لگن“ بل کہ” اگن“ کہنا چاہیے، تھی اور پھر ایک دن اُس نے اعلان کر دیا کہ وہ واپس تونسہ شریف جا رہا ہے، اپنے وطن، اپنے ماں باپ کے پاس۔ شاہد ماکلی کے واپس جانے کی خبر نے سب دوستوں کو اُداس کر دیا لیکن وطن اور ماں باپ کے ساتھ رہنے کی اس کی خواہش کو دیکھتے ہوئے، کسی نے بھی جانے سے منع نہیں کیا اور پھر وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس تونسہ شریف چلا گیا۔ خالد احمد صاحب اُس کے چلے جانے پر بہت اداس تھے، ارشد شاہین پہلے ہی ناروے جا چکا تھا۔ پھر خالد احمد صاحب کی حالت بگڑی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے۔ شاہد بھی روتا ہوا لاہور آیا۔ بہت باتیں ہوئیں خالد صاحب کے ساتھ گزرے شب و روز کی۔
پھر ایک دن شاہد نے فون پر بتایا کہ وہ تونسہ شریف سے ایک ادبی پرچہ نکالنے جا رہا ہے۔مجھے معلوم تھا وہ ایسا کر گزرے گا اور وہ کر گزرا۔ بہت دن پرچے کے نام پر غور و خوض ہوتا رہا۔ ”اعصار“ فائنل ہوا۔ اور پچھلے دنوں ”اعصار“ کے پہلے شمارہ نے ہمارے دروازے پرآن دستک دی۔ شاہد نے ہمیشہ کی طرح اس پرچے میں بھی ایک اچھا اور محنتی مدیر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ خوب سے خوب تر تخلیقات کی اشاعت اور طرزِ پیش کش اپنی طرف کھینچتی ہے۔چھیانوے صفحات کے اس پرچہ میں قاری کے لیے بہت کچھ ہے۔ یقین جانیے دورِ حاضر میں شائع ہونے والے ضخیم ادبی جرائدمعیار کے معاملے میں ”اعصار“ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
شاہد ماکلی نے خالد احمد صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اُن پر گوشہ کو ”اعصار“ کا ایک مستقل سلسلہ قرار دیا ہے۔ زیرِ نظر شمارہ میں گوشہ خالد احمد میں اُن کی دو مقبول غزلیں شامل ہیں۔ دونوں غزلوں سے تبرکاً ایک ایک شعر پیش کرنا چاہوں گا:
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اِسی لیے تو وہ بچوں کو مائیں دیتا ہے
نوحے فصیلِ ضبط سے اُونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں
مضامین کے باب میں جناب ظفر اقبال ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ضیاءالمصطفیٰ ترک کے مضامین شامل ہیں۔ظفر صاحب میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں لیکن اُن کے مضامین کسی اور فضا میں تخلیق ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون ”کچھ حبیب جالب کے بارے میں“ میں حبیب جالب کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں گئی۔انھوں نے حبیب جالب کو ایک کم پڑھا لکھا اور درمیانے درجے کا شاعر قرار دیتے ہوئے ان کی مقبولیت (عوامی) کو ان کی حریتِ فکر اور جنرل ایوب خان سے ماتھا لگانے کا نتیجہ بتایا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں اور شورش کاشمیری کی شہرت کا بنیادی سبب سیاسی شاعری کو گردانتے ہوئے لکھتے ہیں: ” چناں چہ اِس لحاظ سے سیاسی شعرا میں ہم مولانا ظفر علی خاں اور شورش کاشمیری کو شمار کر سکتے ہیں، جو اگر غیر سیاسی رہتے تو شاید بامِ شہرت کی ان بلندیوں تک کبھی نہ پہنچ سکتے۔ “ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”جہاں تک مزاحمتی اور انقلابی ہونے کا تعلق ہے تو یہ ممکن ہے کہ حبیب جالب اس لحاظ سے فیض سے بھی آگے نکلتا ہوئے نظر آئے، لیکن اس کے کلام میں، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے، شاعری کم دست یاب ہو گی اور انقلاب زیادہ۔ شاعری وہ ہے جو خواص اور عوام دونوں کے لیے ہو، جیسی کہ فیض کی شاعری ہے۔ یعنی اُس کی شاعری میں سے اگر انقلاب اور مزاحمت نکال دیے جائیں تو بھی اتنی شاعری بچ جاتی ہے جو اُسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ البتہ عوامی شاعر کا لقب حبیب جالب ہی کے حصے میں آئے گا، فیض کے نہیں۔“ ظفر اقبال صاحب کے لکھے پر ایک طویل بحث ممکن ہے لیکن یہاں اس کا محل نہیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا مضمون ” ظہور احمد فاتح کی غزل“ غالباً معروف شاعر ظہور احمد فاتح کے شعری مجموعہ ”ساری بھول ہماری تھی“ کی تعارفی سطور ہیں۔ خواجہ صاحب نے کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض چند سطور میں جناب ظہور احمد فاتح کی غزل کے نمایاں رُجحانات پر اس انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ اب ہمیں ”ساری بھول ہماری تھی“ کی تلاش رہے گی۔ جناب ضیاءالمصطفیٰ ترک نے ارشد علی کی افسانہ نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے۔
افسانوں میں خالد فتح محمد کاافسانہ ”سلائی کی مشین“، محمدحامد سراج کا افسانہ ”ہوٹل “ اور ظہوالحق کا افسانہ ”کہانی روٹھ گئی ہے“شامل ہیں۔ خالد فتح محمد اور محمد حامد سراج کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اُن کے زیرِ نظر افسانے بھی اُن کے مخصوص اسلوب و فکر کے آئینہ دار ہیں۔ حصہ غزل میں نجیب احمد، خالد علیم، اکبر معصوم، شاہین عباس، آفتاب حسین، شہاب صفدر، احمد عطاءاللہ، حسنین سحر، اشفاق ناصر، ارشد شاہین، شمشیر حیدر، سلیم فراز، ضیاءالمصطفیٰ ترک، جلیل حیدر لاشاری، احمد رضوان، کاشف حسین غائر، احمد کامران، محسن اسرار، سجاد بلوچ، ممتاز گورمانی، تہذیب حافی، شہزاد شہظل، سید فضل گیلانی، اصغر ساجد، خاور اسداور شاہد ماکلی کی غزلیں شامل ہیں۔نوید صادق، شہزاد نیر، تنویر مونس، کاہش کیفی، کاشف مجید کی نظمیں ”اعصار“ کی قدر و قیمت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ گوشہ خاص میں قمر رضا شہزاد کی پانچ، افضل گوہر،کنور امتیاز احمداور فیصل ہاشمی کی پندرہ پندہ غزلیات شامل ہیں۔شاہد ماکلی نے ماں بولی کا حق ادا کرنے کے لیے سرائیکی ادب کا ایک گوشہ بھی ترتیب دیا ہے۔ یہ گوشہ ایک مہکتے گل دستے سے کم نہیں۔یہ گوشہ رفعت عباس کی کافی سے شروع ہو کر عزیز شاہد، بشیر غم خوار، پرواز قیصرانی، مصطفی جتوئی، ریاض عصمت، جمشید ناشاد، فریاد ہیروی، عصمت گورمانی، طارق محسن، شریف پردیسی، امداد ہمدرد، اشفاق سحر، اصغر ساجد، فیاض برمانی، جلیل حیدر لاشاری، شبیر ناقد، خدابخش زخمی، امجد بخاری، عبدالمناف واقف، مومن مولائی، اخلاق لغاری اور شاہد ماکلی کی سرائیکی غزلوں ، مختیار لغاری اور عباس کھر کی نظموں سے ہوتا ہوا چار سرائیکی شعرا مختیار اطہر، عاطف بلوچ، عابد بلال عابد اور زوہیب کی پانچ پانچ سرائیکی غزلوں پر مشتمل گوشہ خاص پر ختم ہوتا ہے۔ ”اعصار“ کا زیرِ نظر شمارہ ہر لحاظ سے لائقِ مطالعہ اور قابلِ تحسین ہے کہ فاضل مدیر نے اس میں معروف تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ کم یا غیر معروف ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تخلیقات کو جگہ دی ہے۔ اللہ کرے شاہد ماکلی اس سلسلہ کو اسی انداز میں جاری رکھیں۔آمین!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن
۱۶ دسمبر ۲۰۱۳ء