جیسا تمھیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو ۔۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
………

جیسا تمھیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو
…………………

شاہین عباس سے ہمارا تعارف جامعہ ہندسیہ لاہور میں انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران ہوا۔ ہم جب بغرضِ تعلیم جامعہ میں داخل ہوئے تو یہاں کے شعری افق پر شاہین عباس نمایاں مقام کے حامل تھے۔ اُن دنوں جامعہ میں شاہین عباس کے علاوہ غافر شہزاد، رحمان حفیظ ، احمد فاروق اور طیب رضا کے نام شعر و ادب کی تخلیق کے حوالے سے مقبول تھے۔ بعدازاں اس کارواں میں ادریس بابر، اکبر ناصر، مسعود اختر، ذوالفقاد عادل، آصف شفیع، سلیم ساگر، ابوبکر مغل،نصراللہ نصر، شاہد فرید شاہد ، محمود اعوان، صہیب اکرام وغیرہ آ شامل ہوئے۔ جامعہ سے تحصیلِ علمی کے بعد ادب بہت سے دوستوں کا مسئلہ نہ رہا اور وہ کاروبارِ زندگی کی بھول بھلیوں میں ایسے الجھے کہ ادب کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی خیرآباد کہہ گئے۔احمد فاروق ہمیشہ کے کم گو تھے، رحمان حفیظ نے شعر کی تخلیق سے زیادہ دوسروں کی تربیت پر وقت صرف کرنا شروع کر دیا، ادریس بابر نے ناروے کی راہ لی لیکن شعروادب سے رشتہ استوار رکھا ، اکبر ناصر کو پولیس ہو گئی، ذوالفقار عادل کو ’پارکو‘ بہا لے گئی، مسعود اختر کاروبارِ زندگی میں ایسا الجھے کہ پلٹ کر کبھی کسی کی خبر نہ لی، آصف شفیع روزگار کے چکر میں بیرونِ ملک چلے گئے، سلیم ساگر افسر ہو گئے، نصراللہ نے نہ کبھی کسی کی خبر لی نہ اپنا پتہ دیا، محمود اعوان اور صہیب اکرام بھی روزگار کے چکر میں وطن چھوڑ گئے۔
جامعہ میں اور جامعہ کے بعد شاہین عباس کی شخصیت اور شاعری ہمیشہ پر کشش رہے۔ 1992ءمیں شاہین عباس کا پہلا شعری مجموعہ ”خواب میرا لباس“ منظرِ عام پر آیا۔ شاہین عباس کے درج ذیل ا شعار ان دنوں زباں زد عام تھے:

میں تھا کہ اپنے آپ میں خالی سا ہو گیا
اُس نے تو کہہ دیا: مرا حصہ جدا کرو

اک نقش ہو نہ پائے اِدھر سے اُدھر مرا
جیسا تمھیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو

شاہین عباس کی شہرت جامعہ کے حلقوں سے باہر بھی سنائی دی جانے لگی۔ شاہین عباس نے 1995ءمیں تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے کے بعد بھی جامعہ، جامعہ کے دوستوں اور شعر و ادب کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ اُن کا ہفتہ وارشیخوپورہ سے لاہور کا چکر جامعہ میں شعروادب کی ترویج میں حصہ دار رہا۔ 1998ءمیں شاہین عباس کا دوسرا شعری مجموعہ ”تحیر“ اشاعت پذیر ہوا۔ ”تحیر“ کو سراہنے والوں میں جناب احمد ندیم قاسمی، جناب خورشید رضوی اور جناب فیصل عجمی کے نام آتے ہیں۔ ”تحیر“ میں شاہین عباس کھل کر سامنے آئے۔جناب احمد ندیم قاسمی کی رائے سے اقتباس:” شاہین عباس کی غزل کا ایک اور پہلو مسرت بخش اور پھرحیرت بخش ہے کہ عنفوانِ شباب ہی میں اس نے اپنے فن میں فکر کا عنصرکچھ اس حسن کاوی سے شامل کیا ہے کہ غزل سراسر غزل ہی رہتی ہے مگر قاری اس کے افکار کی گہرائی کا قائل ہو جاتا ہے۔“ جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے مضبوط روایت کی شریانوں میں تازہ خون کی طرح دوڑتی تخلیقی رو، خوش آہنگ صوتیات اور عمیق حزن کو شاہین عباس کی انفرادیت کے عناصر قرار دیا۔ ”تحیر“ سے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:

آتشِ غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ
بات کر سکتی ہے اب میرے برابر آ کر

یوں نہ ہو خیمہ گہِ خواب بلاتی رہ جائے
اور اس خیمے میں اپنا کبھی آنا ہی نہ ہو

چاک پر کچھ تو ہم اپنی شعلہ سامانی سے ہیں
کچھ برابر سے ہوا دیتی ہے کوزہ گر کی آگ

2002ءمیں شاہین عباس کا تیسرا شعری مجموعہ ”وابستہ“ شائع ہوا۔جنابِ ظفر اقبال نے پیش لفظ اور جنابِ خورشید رضوی نے پسِ الفاظ میں اس شعری مجموعہ کی پذیرائی کی۔ دونوں اصحاب نے تفصیلاً شاہین عباس کے شعری و فکری محاسن کا جائزہ پیش کیا۔ ”وابستہ “میں شاہین کے بنیادی موضوعات حیات و کائنات ہیں۔ ”وابستہ سے چند اشعار نذرِ قارئین ہیں:

میرے کچھ اشک تہہِ دل میں بھی تھے
جانچنے والوں نے عجلت کی ہے

کیا دھوپ تھی جس کو پیر آئے
کس دشت کے پار اُتر گئے ہم

وہ گلی جو داستانوں ہی میں گم ہوتی تھی بس
چلتے چلتے آج ہم سے واقعی گم ہو گئی

2009ءمیں شاہین عباس کا چوتھا شعری مجموعہ ”خدا کے دن منظرِ عام پر آیا۔ذاتی واردات، خالص ذاتی مشاہدہ، اپنا تجربہ اور گہرا غور وخوض شاہین عباس کی غزل کے بنیادی عناصر ہیں۔شاہین عباس کے ہاں سنی سنائی باتیں اور سطحی پن نہیں ہیں۔ہر چیز میں ایک خاص ترتیب، خاص سلیقہ ایک جاں کاہ ریاضت کا پتہ دیتے ہیں۔ شاہین عباس وجدان اور عقل دونوں کو ساتھ لے کر چلے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں، وہی صدیوں پرانے سوالات، لیکن پیرایہ اظہار اور اندازبیان انھیں دوسروں سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔وقت، خصوصاً گزرتا وقت اور انسان شاہین عباس کے بنیادی مسئلوں میں سے ہیں ۔ وہ اپنی سحرکار پیکر تراشی اور نادرہ کار استعارہ سازی، نئے تلازموں، نئے اظہاری سانچوں اور خوش آہنگ تراکیب کے ذریعے مفاہیم اور اسلوب کے نئے جہان دریافت کرتے چلے جا تے ہیں۔”خدا کے دن“ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

تم نے کیا بات کاٹ دی تھی مری
گھر میں آتا رہا گلی کا شور

سمتوں کا اِس قدر خیال ؟ سمتوں کا اِس قدر ملال؟
چاروں کے بیچ بیٹھ کر ، چاروں کا غم کیا گیا

مٹی کو عذاب ہو رہا ہے
تعمیر مری تمام کیجئے

پانی یہاں سے چل دیا ، تجھ کو پکارتا ہوا
بیٹھا اب اپنے حوض پر ، پانی کا انتظار کر

”منادی“ شاہین عباس کی نظموں کا پہلا مجموعہ، 2013ءمیں شائع ہوا۔ جناب ستیہ پال آنند، جناب نصیر احمد ناصر اور جناب شاہد شیدائی نے اس کتاب پر اپنی آراءکا اظہار کیا ہے۔شاہین عباس کی غزل کی طرح ان کی نظم میں بھی فکری عنصر غالب نظر آتا ہے۔ لیکن کہیں بھی بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ اُن کی تمثال نگاری، ترکیب سازی یہاں بھی ان کو دوسروں سے منفرد رکھے ہوئے ہیں۔ شاہین عباس کی شاعری ہر لحاظ سے ایک نئے عہد میں ایک نئے انسان کی شاعری ہے جس کے مسائل اگلوں سے مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۹ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment