ابو طالب انیم

 

وہ میری مٹھی میں وقت دے کر مکر نہ جائے
میں ڈر رہا ہوں کہیں یہ لمحہ گذر نہ جائے

یہ کھیل سارا تو ہے کنارے کی آرزو کا
خیال رکھنا یہ کارواں پار اُتر نہ جائے

میں اپنے ہاتھوں سے کتنے جنگل اُگا چکا ہوں
پر آج تک دل سے پیڑ چھونے کا ڈر نہ جائے

اجل! خبر اس کی رکھ کہیں زندگی کے ہاتھوں
شکار تیرا زمیں پہ بے موت مر نہ جائے

وہ تیرگی ہے کہ پر پرندوں کے بجھ گئے ہیں
مجھے یہ دھڑکا لگا ہے میرا سفر نہ جائے

یہ شب قیامت کی شب ہے، تنہا گذارنے دے
یہ دل کہیں تجھ سے بے وفائی ہی کر نہ جائے

یہاں کفن گر تو صرف میں ہوں سو کوئی آکر
مری ہی میت مری ہی چوکھٹ پہ دھر نہ جائے

اگر میں اپنے بدن کی مٹی کو خاک کردوں
تو کیا یہ سب کائنات پل میں بکھر نہ جائے؟

سفر تو ہے ساتویں جہت کا سو کیا کرے دل
کہیں پہ کوئی مکان ہو تو ٹھہر نہ جائے

میں جانتا ہوں کہ زندگی آئنہ نہیں ہے
نہیں تو ہستی دکھا کے چہرہ سنور نہ جائے؟

یہاں تو ہر شام اک نیا گھر بدل رہی ہے
اسے کہو وہ پلٹ بھی آئے تو گھر نہ جائے

ہمارا جو حال بھی ہے ہم خود سنبھال لیں گے
انیم جس کو خبر نہیں ہے، خبر نہ جائے

Related posts

Leave a Comment