احمد جلیل ۔۔۔ نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا

نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا
یہ کیسا درد ہے میرے وجود میں بکھرا

لہو لہو تھا وہ مقتل کی حد پھلانگ گیا
مگر میں مر کے بھی تیری حدود میں بکھرا

گنوا دیا تھا بہت کچھ انا بچاتے ہوئے
جو بچ گیا تھا وہ نام و نمود میں بکھرا

جو ایک کھیل سمجھتا تھا عشق کو پہلے
پھر اس کے بعد اُسی کھیل کود میں بکھرا

یہ حسنِ ماہ و کواکب یہ رنگِ قوس قزح
تمھارا حسن ہے چرخِ کبود میں بکھرا

بڑی انیس تھی گمنامیوں کی دھند جلیل
مرا یہ آئنہ شہرِ نمود میں بکھرا

یہ جان ویسے بھی اک دن جلیل جانی تھی
ہزار شکر میں تیرے سجود میں بکھرا

Related posts

Leave a Comment