دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا بیابان نہ ہو خود سے پہلی ہے ملاقات مری جانتا ہوں پھر بھی اے آئنے تو اتنا تو حیران نہ ہو اس میں جذبے تو دھڑکتے نہیں دیکھے میں نے غور سے دیکھ کہیں دل ترا بے جان نہ ہو خواب ایسے نہ سجانا میری ان آنکھوں میں جن کی تعبیر کا کوسوں تلک امکان نہ ہو ایسے گھر کی نہیں اب مجھ کو ضرورت کوئی زندگی کرنے کا جس میں کوئی سامان نہ…
Read MoreTag: Ahmad Jaleel
احمد جلیل ۔۔۔۔ امجد اسلام امجد کی یاد میں
امجد اسلام امجد کی یاد میں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ ڈوب گیا منزلوں کا اشارہ ڈوب گیا علم و فن کا غرور تھا امجد فن کا وہ استعارہ ڈوب گیا اس کے فن پارے روشن و رخشاں روشنی میں وہ سارا ڈوب گیا اس کے کردار ہیں امر سارے خود اجل سے وہ ہارا ڈوب گیا دیکھتا تھا وہ ساحلوں سے جسے اس بھنور میں کنارا ڈوب گیا جیت ، امید اور رجا کا نقیب موت سے وہ بھی ہارا ڈوب گیا آسمانِ ادب کا ماہِ منیر آج امجد ہمارا…
Read Moreپروین شاکر ۔۔۔ احمد جلیل
پروین شاکر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو ادب سے روٹھ گئی آج وہ مگر خوشبو ہر ایک رنگ تھا اس کے سخن اجالے میں دھنک گلاب شفق تتلیوں کے پر خوشبو اسے قرینہ تھا ہر ایک بات کہنے کا سماعتوں کے وہ سب کھولتی تھی در خوشبو وہ خود کلامی تری تیرا جبر سے انکار ہیں تیری سوچ کے صد برگ نامہ بر خوشبو جو تیرے پھول سے بکھری ہے ان ہوائوں میں ہمیشہ کرتی رہے گی وہ اب سفر خوشبو نہ جانے اتریں کہاں…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا
آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا گِر جائے جو نظروں سے اُٹھایا نہیں جاتا اس دشتِ تمنا میں مَیں جلتا ہوں شب و روز جس سمت کبھی بھول کے سایا نہیں جاتا ہم صبح کے بھولے ہوئے وہ لوگ ہیں جن سے گھر شام کو بھی لوٹ کے آیا نہیں جاتا ہر دل نہیں ہوتا ہے محبت کا سزاوار ہر ساز پہ یہ راگ تو گایا نہیں جاتا اب اس کو بھلانے کا ارادہ تو ہے لیکن دریا کبھی الٹا بھی بہایا نہیں جاتا سوچا ہے کئی بار نہ…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا
نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا یہ کیسا درد ہے میرے وجود میں بکھرا لہو لہو تھا وہ مقتل کی حد پھلانگ گیا مگر میں مر کے بھی تیری حدود میں بکھرا گنوا دیا تھا بہت کچھ انا بچاتے ہوئے جو بچ گیا تھا وہ نام و نمود میں بکھرا جو ایک کھیل سمجھتا تھا عشق کو پہلے پھر اس کے بعد اُسی کھیل کود میں بکھرا یہ حسنِ ماہ و کواکب یہ رنگِ قوس قزح تمھارا حسن ہے چرخِ کبود میں بکھرا بڑی انیس تھی گمنامیوں…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ آتی جاتی سانسوں نے دل سے بیوفائی کی
آتی جاتی سانسوں نے دل سے بیوفائی کی زندگی کے زنداں سے روح کی رہائی کی خود سے بھی چھپا رکھتے بھید جو چھپانا تھا بات لا کے ہونٹوں پہ تم نے خود پرائی کی کھل گیا درِ توبہ مستجاب لمحوں میں قلب و جاں کی اشکوں سے جب کبھی صفائی کی جانے ہجر میں کب تک وصل کو ترسنا ہے ختم ہی نہیں ہوتی رسم یہ جدائی کی جھانک کر ذرا دِل میں پھر جلیل بتلاؤ بات زیب دیتی ہے تم کو پارسائی کی
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ ملے گا کیسے درختوں کی ٹھنڈی چھائوں سے
ملے گا کیسے درختوں کی ٹھنڈی چھائوں سے وہ شہر آ تو گیا ہے بچھڑ کے گائوں سے بتا رہے ہیں دھوئیں کی لکیر کے تیور چراغ لڑتا رہا دیر تک ہوائوں سے مری زمین سے بہتر کوئی جہان نہیں میں لوٹ آیا ہوں اجڑی ہوئی خلائوں سے مفاہمت کسی فرعون سے نہیں کی ہے اُلجھتے آئے ہیں ہر دور کے خدائوں سے حسینیت کا علم جو اُٹھا کے چلتے ہیں جلیل ڈرتے کہاں ہیں وہ کربلائوں سے
Read Moreاحمد جلیل … کوئی سلسلہ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا
کوئی سلسلہ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا مرا اس سے اب کوئی واسطہ ہی نہیں رہا مرے چاروں اور یہ کس طرح کے حصار ہیں مرے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہا میں بکھر گیا ہوں قدم قدم رہِ یار میں مری آرزوئوں کا قافلہ ہی نہیں رہا مجھے بخش دے کبھی اس طرح کی بھی قربتیں میں یہ کہہ سکوں کوئی فاصلہ ہی نہیں رہا ترے شوق میں میں گزر گیا حدِ جان سے مری جان اب کوئی مرحلہ ہی نہیں رہا تری دسترس سے نکل کے جائوں گا…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔ حسرت سے ہم بہ دیدِۂ نم دیکھتے رہے
حسرت سے ہم بہ دیدِۂ نم دیکھتے رہے روکے نہ اس نے بڑھتے قدم دیکھتے رہے لفظوں میں حُسنِ یار سمیٹوں تو کس طرح حیرت سے مجھ کو لوح و قلم دیکھتے رہے میرے علاوہ سب کی طرف دیکھتا تھا وہ محفل میں شوق سے جسے ہم دیکھتے رہے یہ اور بات خود نظر آئے نہ وہ کہیں ہوتے رہے جو ان کے کرم دیکھتے رہے ٹوٹے ہیں آج پر، تو گرے ہیں زمین پر اب تک بلندیوں کو ہی ہم دیکھتے رہے کرب و بلا میں شامِ غریباں کی…
Read More