احمد جلیل … کوئی سلسلہ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا

کوئی سلسلہ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا
مرا اس سے اب کوئی واسطہ ہی نہیں رہا

مرے چاروں اور یہ کس طرح کے حصار ہیں
مرے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہا

میں بکھر گیا ہوں قدم قدم رہِ یار میں
مری آرزوئوں کا قافلہ ہی نہیں رہا

مجھے بخش دے کبھی اس طرح کی بھی قربتیں
میں یہ کہہ سکوں کوئی فاصلہ ہی نہیں رہا

ترے شوق میں میں گزر گیا حدِ جان سے
مری جان اب کوئی مرحلہ ہی نہیں رہا

تری دسترس سے نکل کے جائوں گا میں کہاں
مری جان مجھ میں یہ حوصلہ ہی نہیں رہا

ترے بعد جذبے ہیں برف رُت کے حصار میں
مرے دل میں اب کوئی ولولہ ہی نہیں رہا

تو بھی بھول جا اُسے اب جلیل یہ سوچ کر
تری داستاں میں یہ واقعہ ہی نہیں رہا

Related posts

Leave a Comment