فرحت پروین ۔۔۔ تمھیں آزاد کرتی ہوں

تمھیں آزاد کرتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی عُذر ڈھونڈو
اور نہ اب نظریں چرائو تم
مجھے معلوم ہے
میں سب سمجھتی ہوں
تمھارے عہدِ الفت سے تمھیں آزاد کرتی ہوں
اب ایسا ہے کہ پتھرکا زمانہ پھر سے لوٹ آیا
وہی قانون جنگل کا، جبلت کا غلام انساں
فرازِ عرش سے پاتال تک کا ہے سفر یعنی
فراق و ہجر کے موسم ہوئے پارینہ قصے اب
بکثرت ہیں میسر اب تو معشوقانِ شیریں لب
میں ہوں حیرت زدہ اب تک
وہ کیسے لوگ تھے آخر
لہو سے کر گئے رنگین جو الفت کے قصوں کو
عجب ہی رہ نکالی تھی
وفا کی رسم ڈالی تھی
میں قصہ گو ابھی تک داستانوں ہی میں رہتی ہوں
وہی رسمیں نبھاتی ہوں، وہی دکھ درد سہتی ہوں
مگر میں عہدِ حاضر کے رویّوں سے بھی واقف ہوں
سو کوئی عُذر مت ڈھونڈو
نہ اب نظریں چرائوتم
مجھے معلوم ہے، میں سب سمجھتی ہوں
تمھارے عہدِ اُلفت سے تمھیں آزاد کرتی ہوں

Related posts

Leave a Comment