احمد فراز … ابرِ بہار اب کے بھی برسا پرے پرے

ابرِ بہار اب کے بھی برسا پرے پرے
گلشن اُجاڑ اُجاڑ ہیں، جنگل ہرے ہرے
 
جانے یہ تشنگی ہے ہوس ہے کہ خود کشی
جلتے ہیں شام ہی سے جو ساغر بھرے بھرے
 
ہے دل کی موت عہدِ وفا کی شکستگی
پھر بھی جو کوئی ترکِ محبت کرے، کرے
 
اب اپنا دل بھی شہرِ خموشاں سے کم نہیں
سن ہو گئے ہیں کان صدا پر دھرے دھرے
 
رہتے ہیں اہلِ شہر کے سائے سے دور دور
ہم آہوانِ دشت کی صورت ڈرے ڈرے
 
گل بن کے پھوٹتا ہے لہو شاخسار سے
زخمِ رگِ بہار ہیں پتّے ہرے ہرے
 
زندہ دلانِ شہر کو کیا ہو گیا فراز
آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو چہرے مرے مرے

Related posts

Leave a Comment