اختر شمار ۔۔۔ زیرِ کائی جو گزرتی ہے کنول ہونے تک

زیرِ کائی جو گزرتی ہے کنول ہونے تک
میں اسی کرب میں رہتا ہوں غزل ہونے تک

کس قیامت کی گھڑی ہے کہ خدا جانتا ہے
میں تری راہ تکوں شامِ اجل ہونے تک

تو نے تو آگ بجھانے کا کہا ہے فورا”
راکھ ہو جائیں گے دل اس پہ عمل ہونے تک

تیری آنکھوں کو ہوں شہکار بنانے والا
سامنے بیٹھے رہو یوں ہی غزل ہونے تک

آخری دید سے یہ ہجر مکمل ہو گا
زہر بھی زہر نہیں، خون میں حل ہونے تک

کیوں نہ اس ہجر سے بہتر ہے کہ ہجرت کر لیں
کون بیٹھا رہے اس دشت کے جَل ہونے تک

کن تھپیڑوں سے گزرتا ہے تجھے سوچنے میں
تیرا فنکار شمار آنکھ کے شل ہونے تک

Related posts

Leave a Comment