قبل اَز قبل ۔۔۔۔۔۔۔ شاہین عباس

قبل اَز قبل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اُن دنوں
مو بہ مو ہوش تھا‘ جن دنوں
بات بے بات کی ہرسیاہی سفیدی
کے معلوم میں
سانولے پن کےدورے پڑاکرتے تھے
پے بہ پے خال خالِ فراموش پر
اور میں گر جایاکرتاتھا سانول کے اَندھیر میں
رنگ کے ڈھیر میں
روشنی بن ُبلائے لپکتی تھی میری طرف
نبض کو ہاتھ میں لے کے حیران ہوتی تھی
کہتی تھی:
ایسے مریض اَب کہاں
ملگجے کا مرض ۔۔۔مستیوں کے معلق دُخان !
اَرض کے تجربے میں نیا آدمی اور نیا آسماں‘
ِشخص نا شخص کا جاں گسل جھٹپٹا ۔۔۔خوں بہا !
دورے پڑتے رہے اور میں گرتا رہا
مجھے اُن دنوں
میں من وتوسے آمیز تھا جن دنوں
سانولے پن کے چکر چڑھا کرتے تھے
ضربتیں عام تھیں
میرے زنگال کی گردشیں خاص تھیں
اور میں بھر جایا کرتا تھا جھولوں ‘ ہنڈولوں
کے پھیروں سے
ساجن نما گھیر تھا‘ کیسا اَندھیر تھا!

آج دن بھر کا معمول یوں ہے توکیوں ہے
الف الگنی ۔۔۔ الگنی پر یہ انگ انگ جھرمٹ
قمیص اَور سلوٹ
یہ میں اَور تم
اور یہ جھونکا ‘ یہ جھولا ‘ ہنڈولا
ذرا روز مرہ کی وادی میں
سیرابی کی مشق جرعہ بہ جرعہ
کنارے کنارے تمھارے الانگ اور
پھلانگ اوِر اُدھم
میرے کونین کا کالیا ‘
تھوڑا تیز اَور تھوڑا سا مدھم !
مرے منہ کی ہر رال کا ‘
میری تسبیح اَعمال کا ہے جنم
آج کی شام سے کیا حیا
آج کی رات کیسا حرم ‘ ناحرم
ہاں تو میں کہہ رہا تھا
میں بھرتا رہا‘ چکر آتے رہے
سانولے پن کے جھٹکے لگاکرتے تھے
اور میں مَر جایاکرتا تھا ، عین اُن دنوں
موت کا جب تعارف مکمل نہیں تھا
میں اوّل سے اوّل تھا ،سب رنگ نامی
اِدھر کا مہاجر ‘ اُدھر کا مقامی !!

Related posts

Leave a Comment