ارشد محمود ارشد ۔۔۔ دو غزلیں

جھوٹی شان و شوکت چھوڑ
لے ڈوبے گی شہرت ، چھوڑ

لافانی کے بارے سوچ
فانی دہر کی رغبت چھوڑ

پھولوں کی بھی چاہت کر
کانٹوں سے بھی نفرت چھوڑ

حد میں رہ کر جینا سیکھ
جذبوں کی یہ شدت چھوڑ
خرچ ہوئی تو کیا غم ہے
ہاتھ کا میل ہے دولت چھوڑ

اٹھ اب پرچم تھام کے رکھ
مشکل وقت ہے غفلت چھوڑ

ارشد بس اک بھول ہوئی
حکم ہوا کہ جنت چھوڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرد موسم میں ہَوا تو نہیں مانگی جاتی
چھت ٹپکنے پہ گھٹا تو نہیں مانگی جاتی

تُو کسی اور کے کالر میں سجا پھول ہے دوست
تجھ کو پانے کی دعا تو نہیں مانگی جاتی

جس کی عریانی چھپائی ہو اندھیری شب نے
کیا کرے وہ کہ ضیا تو نہیں مانگی جاتی

اس محبت میں تجارت نہیں ہوتی مجھ سے
دل کے بدلے میں وفا تو نہیں مانگی جاتی
ان کو پُرکھوں کی روایت پہ ہے کاٹا جاتا
بے زبانوں سے رضا تو نہیں مانگی جاتی

جب سے منسوب ہوا ہے تُو کسی اور کے ساتھ
تیرے ہاتھوں کی حنا تو نہیں مانگی جاتی

ایک وہ شخص مقدر میں نہیں تھا ارشد
رب سے کچھ اور عطا تو نہیں مانگی جاتی

Related posts

Leave a Comment