استاد قمر جلالوی ۔۔۔۔ کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر

کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر
میں تو تہِ مزار ہوں تم ہو مزار پر

یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر
نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر

گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر
منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر

ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر
دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر

رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں
رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر

شاید چمن میں فصلِ بہاری قریب ہے
گرتے ہیں بازوؤں سے مرے بار بار پر

یاد آئے تم کو اور پھر آئے مری وفا
تم آؤ رونے اور پھر آؤ مزار پر

کس نے کئے یہ جور، حضور آپ نے کئے
کس پر ہوئے یہ جور، دلِ بے قرار پر

سمجھا تھا اے قمر یہ تجلی انھیں کی ہے
میں چونک اٹھا جو چاندنی آئی مزار پر

Related posts

Leave a Comment