استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کیا سے کیا یہ دشمن جاں تیرا پیکاں ہو گیا

کیا سے کیا یہ دشمنِ جاں تیرا پیکاں ہو گیا
تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا

باغباں کیوں سست ہے غنچہ و گل کی دعا
اک مرے جانے سے کیا خالی گلستان ہو گیا

کیا خبر تھی یہ بلائیں سامنے آ جائیں گی
میری شامت مائلِ زلفِ پریشاں ہو گیا

کچھ گلوں کو ہے نہیں میری اسیری کا الم
سوکھ کر کانٹا ہر اک خارِ گلستاں ہو گیا

ہیں یہ بت خانے میں بیٹھا کر رہا کیا کیا قمر
ہم تو سنتے تھے تجھے ظالم مسلماں ہو گیا

Related posts

Leave a Comment