اعجاز کنور راجہ ۔۔۔ خرد کو راس ہے ازحد خموشی

خرد کو راس ہے ازحد خموشی
جنوں نے کی ہمیشہ رد خموشی

نہیں بولے جہاں پر بولنا تھا
ہمی سے ہو گئی سرزد خموشی

لبِ اظہار پر پہرے بٹھا کر
بڑھا لیتی ہے اپنا قد خموشی

کٹہرے میں کھڑا ہوں اور چپ ہوں
’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘

لپٹ کر مال و زر میں آ رہی ہے
برائے ممبر و مسند خموشی

زبانِ حق پہ تالے پڑ چکے ہیں
خموشی ہے کہ سو فیصد خموشی

قلم تصویر کرتا جا رہا ہے
بیاں کرتی ہے خال و خد خموشی

مرے آرام کے دن آگئے ہیں
ضروری ہے سرِ مرقد خموشی

کنور نروان حاصل کر رہا ہوں
ہے زیرِ سایۂ برگد خموشی

Related posts

Leave a Comment