اعجاز کنور راجہ ۔۔۔ کچھ نہ کچھ ہے کہیں پسِ دیوار، یوں ہی سر پھوڑتا نہیں ہوں میں

کچھ نہ کچھ ہے کہیں پسِ دیوار، یوں ہی سر پھوڑتا نہیں ہوں میں
اک تعلق ہے رائگانی سے، اور اسے توڑتا نہیں ہوں میں

عشق ہے یا ہے خوفِ رسوائی، بات اب تک سمجھ نہیں آئی
بے خیالی میں ہاتھ پکڑا تھا، اب اسے چھوڑتا نہیں ہوں میں

حسنِ تدبیر! کارِ زیبائی!، اُس کی تصویر بن نہیں پائی
کینوس پر لگے ہوئے نقطے، ٹھیک سے جوڑتا نہیں ہوں میں

کارِ آتش مدام جلنا ہے، اِک سفر عمر بھر کا چلنا ہے
منزلیں چھوڑ دیں خوشی سے مگر، راستہ چھوڑتا نہیں ہوں میں

خود کو مشکل پسند رکھتا ہوں، اپنی مٹھی میں بند رکھتا ہوں
جس طرف کچھ نہیں ہے ’لا حاصل‘ ، اس طرف موڑتا نہیں ہوں میں

رنگ و خوشبو لُٹایا کرتے ہیں، پھر یہ مرجھا بھی جایا کرتے ہیں
پیار پھولوں سے اسقدر ہے مجھے، شاخ سے توڑتا نہیں ہوں میں

نرم لہجے میں بات کرتا ہوں، پیار سے روکتا ہوں ٹوکتا ہوں
دل تو نازک سا ایک بچّہ ہے ،اس کو جھنجوڑتا نہیں ہوں میں

تم سناتے ہو پیار کے قصّے، رنگ بھرتے ہو اپنی باتوں میں
عشق پالا ہے سات پردوں میں، اس کو ڈھنڈورتا نہیں ہوں میں

اس کے پیچھے بھی چل کے دیکھ لیا، دور آگے نکل کے دیکھ لیا
وقت ناراض ہے کنور مجھ سے، تیز تر دوڑتا نہیں ہوں میں

Related posts

Leave a Comment