فرہاد ترابی ۔۔۔ کیا ہوا ہے مرا نقصان کہاں سمجھے گا

کیا ہوا ہے مرا نقصان کہاں سمجھے گا
ہائے وہ زود پشیمان کہاں سمجھے گا

اب رفو گر بھی نہیں اس کو رفو کرنے کا
ہاں مگر چاک گریبان کہاں سمجھے گا

دل کے بہلانے کو دو اشک بھی کافی ہیں مگر
چشمِ گریاں! ترا طوفان کہاں سمجھے گا

میں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر جانتا ہوں
تجھ سا بے چین‘ پریشان کہاں سمجھے گا

اب نہیں لگتی گراں پاؤں کی زنجیر مجھے
میرے زنداں کا نگہبان کہاں سمجھے گا

خالقِ ارض و سماوات کے اپنے دکھ ہیں
یہ معمہ کوئی انسان کہاں سمجھے گا

مجھ سے فرہاد کہا ایک بتِ کافر نے
مسئلہ میرا مسلمان کہاں سمجھے گا

Related posts

Leave a Comment