آفتاب خان ۔۔۔ نظیر اور کب ہے کہیں آسماں کی

نظیر اور کب ہے کہیں آسماں کی
سیاحت کرو ، مرمریں آسماں کی

وہاں نور پھیلا ہوا ہے خدا کا
نشانی ہے یہ بہتریں آسماں کی

زمیں تو مری اُنگلیوں پر کھڑی ہے
میں حد دیکھ پایا نہیں آسماں کی

تجھے ساتھ لے کر میں جاؤں وہاں تک
جہاں تک ہے وسعت زمیں آسماں کی

مری جیب میں ایک عرصے سے موجود
ہے تصویر اک دل نشیں آسماں کی

گھٹاؤں نے ہر سو دھواں سا بکھیرا
ہے رُت دیدنی سُرمگیں آسماں کی

وہاں اُس نے جاکر نہیں کچھ بتایا
جو خلقت ہوئی ہے مکیں آسماں کی

کسی روز وہ دن بھی آئے گا آخر
لبوں سے لگے گی جبیں ، آسماں کی

Related posts

Leave a Comment