جاوید قاسم ۔۔۔ دوستو! دُور کی آواز بھی ہو سکتی ہے

دوستو! دُور کی آواز بھی ہو سکتی ہے
کیا حقیقت نظر انداز بھی ہو سکتی ہے

آ بھی سکتا ہے میسر کوئی تازہ جھونکا
ہم پہ وہ کھڑکی کبھی باز بھی ہو سکتی ہے

ٹھنڈے دل سے ذرا سوچیں تو یہ منہ پھٹ دُنیا
دوست ہو سکتی ہے، ہم راز بھی ہو سکتی ہے

عکسِ خاموش کو آواز بنانے والی
آئینے میں مری آواز بھی ہو سکتی ہے

ہو بھی سکتا ہے فلک اپنے کیے پر نادم
دوستی صورتِ آغاز بھی ہو سکتی ہے

کیا عجب ہے کبھی یزداں سے تکلم ہو جائے
ہاں کبھی ایسی تگ و تاز بھی ہو سکتی ہے

جاگ سکتی ہے کسی شاخِ گزشتہ کی طلب
زندگی مائلِ پرواز بھی ہو سکتی ہے

عرصۂ ہجر کے ٹھہرے ہوئے غم میں قاسم
کوئی ساعت کبھی دم ساز بھی ہو سکتی ہے

Related posts

Leave a Comment