جمیل یوسف ۔۔۔ اک انقلاب مری خواہشوں سے پیدا ہو

(یوم آزادی کے تناظر میں)

اک انقلاب مری خواہشوں سے پیدا ہو
اک آفتاب ، مرے رتجگوں سے پیدا ہو

ہوائے شوق کسی دن تو اس طرح سے چل
گُلِ مراد ، مرے آنگنوں سے پیدا ہو

دیارِ شام سے گزروں تو وہ مقام آئے
تری صدا کا گماں ، آہٹوں سے پیدا ہو

مرے نگار اک ایسی شبِ وصال آئے
ترا وجود ، مری دھڑکنوں سے پیدا ہو

میں اس کی موج میں ڈوبوں تو پھر اُبھر نہ سکوں
وہ لہر بھی کبھی تیری تہوں سے پیدا ہو

وہ بادبان ہو جس کو تری کماں کھولے
وہ بحر ہو ں جو ترے پانیوں سے پیدا ہو

اُسی میں دہر کی رنگینیاں سمٹ آئیں
وہ حرفِ سادہ جو میرے لبوں سے پیدا ہو

Related posts

Leave a Comment