سرفراز تبسم ۔۔۔ دو غزلیں

سب سے اونچی اڑان ہے میری
ہر پرندے میں جان ہے میری

آسماں سے گرا سمندر میں
آگے منزل گمان ہے میری

ایک دنیا کو رشک ہے مجھ پر
ساری دنیا ہی شان ہے میری

مری دنیا کو رشک ہے تجھ پر
تیری دنیا سے شان ہے میری

میں پرندوں کا پیڑ ہوتا تھا
سب سے میٹھی زبان ہے میری

جوق در جوق آ رہے ہیں لوگ
سب سے اونچی اذان ہے میری

نفرتیں آگ میں جلانی ہیں
راگ دیپک کی تان ہے میری

گھر ہواؤں میں اب بناؤں گا
اک تخیئل چٹان ہے میری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ پیاس پیالے میں پڑی ہے
مری کشتی سمندر سے بڑی ہے

اسے چھونا نہیں بس دیکھنا ہے
وہ لڑکی شکل سے اک پھلجھڑی ہے

اُسے ہر حال میں حاصل کروں گا
کہ خواہش آخری ضد پر اڑی ہے

سبھی کچھ جاننے کی کیا ضرورت
یہ دنیا کتنی مشکل میں پڑی ہے

فلک کس نے اُٹھا رکھا ہے سر پر
زمیں کی گھاس کیوں اتنی بڑی ہے

حقیقت میں نظر آئے کہیں تو
جو آ ئینے میں اک لڑکی کھڑی ہے

مرے تو ہاتھ بھی کاٹے گئے ہیں
ترے ہاتھوں میں تو بس ہتھ کڑی ہے

Related posts

Leave a Comment