طالب انصاری ۔۔۔ کتنی آسانی سے کہسار اُٹھا لیتا ہوں

کتنی آسانی سے کہسار اُٹھا لیتا ہوں
میں ترے عشق کا آزار اُٹھا لیتا ہوں

ہار جاتا ہے مرے ظرف سے سیلِ گریہ
میں تو پلکوں پہ یہ انبار اُٹھا لیتا ہوں

چھوڑ دیتی ہے جسے عشق سمجھ کر دنیا
میں وہی سنگِ گراں بار اُٹھا لیتا ہوں

موسمِ گُل کا میں رستا نہیں دیکھا کرتا
عجلتِ شوق میں بس خار اُٹھا لیتا ہوں

مجھ کو پیڑوں سے گزارش نہیں کرنا پڑتی
اپنے حصے کے میں اثمار اٹھا لیتا ہوں

اک جھلک بھی جو میسر نہیں ہوتی طالب
سر پہ میں کوچۂ دل دار اٹھا لیتا ہوں

Related posts

Leave a Comment