عزیز فیصل ۔۔۔ چاندنی میں نہائی ہوئی وحشتیں، جب مرے رَتجگوں میں سرایت کریں

چاندنی میں نہائی ہوئی وحشتیں، جب مرے رَتجگوں میں سرایت کریں
دُور پھیلے ہوئے درد کے سلسلے، میری آنکھوں کو آنسو عنایت کریں

ایسے فریادیوں نے مِرے شہر میں، امن کے پیڑ کتنے ہی پیلے کیے
جا کے آکاس بیلوں کے دربار میں، پَت جھڑوں کے ستم کی شکایت کریں

وضع داری کی اِس بدنُما رِیت، سے ‘صورت ِشہر کتنی ہے بگڑی ہوئی
عکس ِجاں کھو کے بھی، کرچیاں ہو کے بھی، آئنے پتّھروں کی حمایت کریں

عشق لے کر ہمیں چل پڑا ہے جہاں، دلبری کا گماں تک نہیں ہے وہاں
حُسن کے روبرو،کر کے دل کو لہو، پیش کیا اپنی ہم غرض و غایت کریں

خوش نما منظروں میں گِھری جھیل نے ‘ ہم کو پیغام بھیجا بدستِ صبا
چند خوابوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے چشم ِ خوش فہم سے اب رعایت کریں

Related posts

Leave a Comment