فضل گیلانی ۔۔۔ عجب ٹھہرائو تھا جس میں مسافت ہو رہی تھی

عجب ٹھہرائو تھا جس میں مسافت ہو رہی تھی
روانہ بھی نہیں تھا اور ہجرت ہو رہی تھی

بنایا جا رہا تھا کینوس پر زرد سورج

ابھارا جا رہا تھا نقش، حیرت ہو رہی تھی

کہیں جاتا نہیں تھا میں کہیں آتا نہیں تھا

یقیں آتا نہیں تھا ایسی حالت ہو رہی تھی

مرا اِس کے بنا تو جی زرا لگتا نہیں تھا

اداسی لوٹ آئی تھی مسرت ہو رہی تھی

چراغ ایک ایک کر کے روشنی کرنے لگے تھے

مجھے ان سب چراغوں سے محبت ہو رہی تھی

نیا اک باغ تھا اور اس کو کاٹا جا رہا تھا

پرندوں کو ابھی پیڑوں کی عادت ہو رہی تھی

بچھڑ جانے کا کچھ کچھ خوف بھی ہونے لگا تھا

مجھے اس کے رویے پر بھی حیرت ہو رہی تھی

نہیں تھی زندگانی بھی وہاں حسبِ تمنا

محبت بھی وہاں حسبِ ضرورت ہو رہی تھی

یہ آنسو تو نہ تھے جو بہ رہے تھے ہجرِ گل میں

یہ خوشبو تھی جو آنکھوں سے روایت ہو رہی تھی

مجھے خود میں کوئ صحرا میسر آ گیا تھا

اڑائی جا رہی تھی خاک وحشت ہو رہی تھی

مکمل بدگمانی ہو گئ تھی اس کو سیّد

پلٹنے میں مجھے بھی اب سہولت ہو رہی تھی

Related posts

Leave a Comment