فیصل زمان چشتی ۔۔۔ اپنے ترکش میں لیے تیر کہاں تک پہنچی

اپنے ترکش میں لیے تیر کہاں تک پہنچی
میرے پیچھے مری تقدیر کہاں تک پہنچی

ترے غم نے مری خوشیوں کو عزادار کیا
دیکھ لو درد کی زنجیر کہاں تک پہنچی

ہم نے مانگا نہ دعاؤں میں کوئی تاج محل
چند سپنوں کی بھی تعبیر کہاں تک پہنچی

سارے اعمال پہ بھاری ہے مروت کا گنہ
لے کے مجھ کو یہی تقصیر کہاں تک پہنچی

کٹ گرا دل ترے پیغام کو پڑھتے پڑھتے
تو کہاں تھا تری شمشیر کہاں تک پہنچی

جس نے ہر درد مرے نام کیا ہے فیصل
وہ بتائے مری جاگیر کہاں تک پہنچی

Related posts

Leave a Comment