قمر جلالوی ۔۔۔ آہ کیا دل کے دھڑکنے کی جو آواز نہ ہو

آہ کیا دل کے دھڑکنے کی جو آواز نہ ہو
نغمہ ہو جاتا ہے بے کیف اگر ساز نہ ہو

میں نے منزل کے لیے راہ بدل دی ورنہ
روک لے دیر جو کعبہ خلل انداز نہ ہو

مرتے مرتے بھی کہا کچھ نہ مریض غم نے
پاس یہ تھا کہ مسیحا کا عیاں راز نہ ہو

ساقیا جام ہے ٹوٹے گا صدا آئے گی
یہ مرا دل تو نہیں ہے کہ جو آواز نہ ہو

اے دعائے دلِ مجبور وہاں جا تو سہی
لوٹ آنا درِ مقبول اگر باز نہ ہو

کیا ہو انجامِ شبِ ہجر خدا ہی جانے
اے قمر شام سے تاروں کا جو آغاز نہ ہو

Related posts

Leave a Comment