محمد انیس انصاری ۔۔۔ نجانے کیسے لپٹ گئی ہیں مرے بدن سے ہزار آنکھیں

نجانے کیسے لپٹ گئی ہیں مرے بدن سے ہزار آنکھیں
میں سونا چاہوں ، تو سونے دیتی نہیں مجھے سوگوار آنکھیں

کسی پہاڑی پہ جا کے تنہا ، گئے دنوں کو بلا کے تنہا
میں جب بھی رویا ، تو میرے ہمراہ روئیں وہ آبشار آنکھیں

جہاں ملے تھے تم آخری بار ، دل گرفتہ ، بہ چشم گریاں
پڑی ملیں گی اُسی جگہ آج بھی سرِ کوہسار آنکھیں

گئے تھے جس دم سفر پہ تم ، دو چراغ جلتے تھے زیرِ اَبرو
اب آئے ہو تو دریدہ دامن ، لہو بدن ، تار تار آنکھیں

میں واپس آیا ، تو میرے آنے تلک قیامت گزر چکی تھی
مگر بچھی تھیں تمام رَستوں پہ جا بجا بے شمار آنکھیں

کبھی مجھے دُور سے بلاتی ، کبھی مجھے دیر تک رُلاتی
دکھائی دیتی ہیں اب بھی کھڑکی کے پار وہ گریہ بار آنکھیں

بس اتنا سا یاد ہے کہ اک دن وہ اُتریں آب حیات لے کر
مگر نہیں اتنا یاد ، پھر کیسے لے گئیں سُوئے دار آنکھیں

اگر کبھی تم محبتوں کے سفر پہ نکلو ، تو یاد رکھنا
اِسی سفر میں ہوئے ہیں اکثر دھواں دھول دِل ، غُبار آنکھیں

اگر تمھیں اُس سے پیار ہے تو ، اُسے کوئی اور دکھ نہ دینا
اسے کبھی نہ دکھانا جاکر یہ زرد چہرہ ، فِگار آنکھیں

کسی دریچے کے طاق میں ہی جلا جلا کر اگر بُجھا دیں
انیسِ جاں! پھر کہاں سے لاؤ گے مانگ کر تم اُدھار آنکھیں

Related posts

Leave a Comment