وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہوگیا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہوگیا کیا امتدادِ مدتِ ہجراں بیاں کروں ساعت ہوئی قیامت و مہ سال ہوگیا دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہوگیا قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...