نسیمِ سحر ۔۔۔ مِٹّی میں اشک گھول کے گارا بناؤں گا

مِٹّی میں اشک گھول کے گارا بناؤں گا
پھر اِس سے اپنا آپ دوبارہ بناؤںگا

تبدیل ہو چکے ہیں سبھی زاویے، سو مَیں
اب ایک اَور قطبی ستارا بناؤں گا

ساری ہَوا کو ایک جگہ جمع کر کے مَیں
بچّے کے کھیلنے کو غبارہ بناؤں گا

ہر چند زندگی سے مجھے کچھ گلے بھی ہیں
اس ناگوار کو بھی گوارا بناؤںگا

تبدیل کر کے مُردہ رسوم و رواج کو
مَیں اِس معاشرے کو دوبارہ بناؤں گا

شامل کروں گا اپنا بدن اور روح بھی
اب کے مجسّمہ جو تمہارا بناؤں گا

جو رنگ دستیاب نہیں ہیں دھنک میں بھی
وہ سب ملا کے رنگ تمہارا بناؤں گا

تعمیرِ نو کروں گا جب اپنے مکان کی
آدھا بنا ہوا تھا جو، سارا بناؤں گا

ساحل کی سمت جانے سے حاصل ہی کچھ نہیں
دریاکے عین بیچ کنارا بناؤں گا

دندانے جس کے جسم میں پیوست ہو سکیں
اِک ایسا تیز دھار سا آرا بناؤں گا

اُس میں بھنور بھی ہو گا مِرا ہم سفر نسیمؔ
میں سیر کے لیے جو شکارا بناؤں گا

Related posts

Leave a Comment